“تمہیدِ غلامی”
تحریر: طارق بن مقبول
چھائ جو گھٹا اندھیری بما آہ و سسکیاں
منظر یہ اشکبار سے، جب بکھرتا ہے شیرازہ
ہے انداز یہ وقت کی میراث کا تراشہ
آتا ہے لوٹ، قدرت کا تماشہ
طوق و زنجیر بنیں تمہیدِ غلامی
مومن ہوے مست، ہیں مللا سلطانی
غیرت ہوئ پامال، اٹھے غیرت کے جنازے
تیغِ مسلماں کے اب رہ گۓ سانچے
ہوے تمام پیچھے، عشقِ زلف و فراق
اب کہاں خدا اور ولولہء فاروقی
ابنِ مقبول، کیا ہوا وہ حب مصطفیٰ
وہ محبت ربی، وہ سنت کا فریضہ